شجر کی تاب سماعت پہ داد بنتی ہے
یہ سنتا آیا ہےصدیوں سے آدمی کا شور
اے ناخداؤ سمندر کو مت سنا دینا
ہماری ناؤ میں اسباب کی کمی کا شور
بڑے سلیقے سے آ کر قضا نے چاٹ لیا
زمیں کےصحن میں برپا تھا زندگی کا شور
بس ایک بار زمانے کے در پہ دستک دی
اب ایسے کون مچائے گھڑی گھڑی کا شور
نیلوفر افضل
There is definately a lot to find out about this issue. I like all the points you made.